Table of Contents

فرشتے اللہ تعالیٰ کی نورانی مخلوق ہیں۔ جنہیں ان کی اصلی شکل و صورت میں دیکھنا انبیاء کرام علیہ الصلاۃ والسلام کے علاوہ کسی اور کے لیے ممکن نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے اردگرد لاتعداد فرشتے اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔ مگر ہمیں وہ دکھائی نہیں دیتے۔ اگر وہ انسانی شکل اختیار کر کے ہمارے سامنے آئیں۔ تو پھر انہیں دیکھنا ممکن ہے۔ انسان کی نسبت فرشتے عظیم مخلوق ہیں۔ اور ان میں بھی چھوٹے ہیں اور بعض بڑے ہیں۔

فرشتوں کے پر

فرشتوں میں بعض کے دو دو پر ہیں۔ اور بعض کے چھ چھ سو پر ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد پاک ہے کہ اللہ تعالی ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں۔ جو آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ اور دو دو تین تین چار چار پروں والے فرشتوں کا اپنا قاصد (پیغمبر) بنانے والا ہے۔

بعض روایات کے مطابق جبرائیل امین علیہ السلام کے چھ سو پر دیکھے گئے ہیں۔ اور ہر پر نے آسمان کو گھیر رکھا تھا۔ ان کے پروں سے مختلف رنگ اور قیمتی موتی بکھر رہے تھے۔

فرشتوں کی قد و قامت

وہ فرشتے جنہوں نے عرش اٹھا رکھا ہے۔ ان کے قد و قامت کے بارے میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا عرش کو اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کے بارے میں مجھے یہ بتانے کی اجازت دی گئی ہے۔

جس کے پاؤںسب سے نچلی ساتویں زمین میں ہیں اور اس کے کندھوں پر عرش ہے۔ اس کے دونوں کانوں اور کندھوں کے درمیان اتنی دوری ہے کہ اسے طے کرنے کے لیے پرندے کو سات سو سال کی پرواز چاہیے۔ وہ فرشتہ کہتا ہے یا اللہ تو پاک ہے جہاں بھی ہے اور جہاں بھی ہو۔

فرشتوں کی ضروریات

اللہ تعالی نے فرشتوں میں شادی بیاہ کی حاجت نہیں رکھی۔ اس طرح انہیں کھانے پینے سے بھی بے نیاز کر دیا ہے۔ اس کی وضاحت قرآن مجید میں مذکور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اس واقعے سے ہوتی ہے۔ جس میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتے آئے۔ تو آپ علیہ السلام ان کے لیے فورا گوشت لے کر آئے۔ مگر انہوں نے اسے تناول نہیں کیا۔

اللہ تعالی نے فرشتوں کو بیماری، سستی، کاہلی، دکھ، تکلیف، تھکاوٹ اور اکتاہٹ وغیرہ سے محفوظ رکھا ہے۔ وہ دن رات فقط اللہ کی اطاعت میں اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔

قرآن مجید میں بیان ہوا کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے۔ اسی اللہ کا ہے اور جتنے اس کے پاس فرشتے ہیں وہ اس کی عبادت سے نہ سرکشی کرتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں۔ وہ دن رات اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ اور ذرا سی بھی سستی نہیں کرتے۔

فرشتے تقریبا عام طور پر آسمانوں میں رہتے ہیں۔ جو صرف اللہ کے حکم سے مختلف کاموں کے لیے زمین پر اترتے ہیں اور پھر واپس آسمان پر چلے جاتے ہیں۔ قرآن مجید میں ایک اور مقام پر خود فرشتوں کی یہ بات مذکور ہے۔ “ہم تیرے رب کے حکم کے بغیر نہیں اترتے”۔

فرشتوں کی تعداد

فرشتوں کی تعداد کتنی ہے اس کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں ملتی۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ بلکہ اندازہ ہوتا ہے کہ انسانوں اور جنوں سے بھی ان کی تعداد زیادہ ہے۔

سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آسمانوں میں کہیں چار انگلیاں جگہ بھی ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ سجدہ ریز نہ ہو۔

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت کے روز جہنم کو اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کی ستر لگامیں ہوں گی اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے۔ جو اسے کھینچ کر لا رہے ہوں گے۔

فرشتوں کی ایک اہم خاصیت

فرشتوں کی ایک اہم خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے حکم سے اپنی شکل و صورت کے علاوہ کوئی اور صورت بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ یہ صورت کسی ایسے انسان کی بھی ہو سکتی ہے۔ جسے دیکھنے والے پہچان لیں۔

انسانوں کے علاوہ کسی اور جاندار کی صورت اختیار کرنے کی فرشتوں کو طاقت ہے یا نہیں۔ اس کے بارے میں قرآن و سنت میں کوئی صراحت یا ذکر نہیں ملتا۔ البتہ ان کی انسانی شکل اختیار کرنے کے واقعات ضرور ملتے ہیں۔ جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ فرشتے اللہ تعالی کے حکم سے دیگر شکلیں بھی اختیار کر سکتے ہیں۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتے انسانی شکل میں آئے اور ابراہیم علیہ السلام ان فرشتوں کو پہچان نہ پائے۔ پھر فرشتوں کے بتانے پر آپ علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ یہ انسان نہیں ہیں بلکہ فرشتے ہیں۔

سیدہ مریم علیہ السلام کے پاس جبرائیل امین علیہ السلام انسانی شکل میں تشریف لائے تھے۔ اور جبریل امین علیہ السلام سوائے دو مرتبہ کے ہر مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس انسانی شکل میں تشریف لائے۔

فرشتوں کی طاقت

اللہ تعالی نے فرشتوں کو انسانوں اور جنوں سے کئی گنا زیادہ قوت و طاقت عطا کر رکھی ہے۔ حضور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب طائف کے مقام پر وہاں کے لوگوں کو اسلام کی دعوت پیش کی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وہاں کے لوگوں نے ظلم و جبر کی انتہا کر دی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لہو لہان کر دیا۔

تو اس مقام پر سیدنا جبرائیل امین علیہ السلام تشریف لائے۔ انہوں نے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا ہے۔ جو انہوں نے آپ کے خلاف اقدام کیا۔ وہ بھی دیکھ چکا ہے۔ آپ کے پاس اللہ تعالی نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے۔ آپ ان لوگوں کے بارے میں جو چاہیں۔ اس فرشتے کو حکم دیں۔

اس کے بعد پہاڑوں کا فرشتہ مخاطب ہوا اس نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا۔ پھر عرض کی اے اللہ کے رسول آپ جو حکم دیں گے۔ میں اس کی تعمیل کروں گا۔ اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑوں کو ان پر لا کر ملا دوں۔ جن سے یہ پس جائیں گے۔

اسی طرح جبرائیل امین علیہ السلام کی قوت و طاقت کے بارے میں قرآن مجید میں ہے۔ انہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زبردست طاقت والے فرشتے نے سکھایا ہے جو زور آور ہے۔

فرشتوں کا نظم وضبط

فرشتے اپنے ہر کام میں نظم و ضبط کی پابندی کرتے ہیں۔ جس میں کسی قسم کی کمی بیشی یا سستی اور کاہلی وغیرہ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ جن فرشتوں کی جب اور جہاں ڈیوٹی شروع ہوتی ہے۔ وہ اس وقت وہاں پہنچ جاتے ہیں اور اسے احسن طریقے سے سر انجام دیتے ہیں۔

فرشتوں کی موت

جس طرح انسانوں کی پیدائش اور موت کے مختلف مراحل ہوتے ہیں۔ فرشتوں کے لیے یہ مراحل نہیں ہیں یعنی دنیا میں نئے انسان پیدا ہوتے ہیں اور پہلے موجود انسان فوت ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس جب اللہ تعالی نے فرشتوں کو پیدا کیا ہے۔ تب سے وہ زندہ ہیں اور قیامت قائم ہونے تک جب تک اللہ پاک چاہیں گے وہ زندہ رہیں گے۔

تب تک اللہ تعالی کی طرف سے انہیں جو ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ انہیں احسن طریقے سے وہ پورا کرتے رہیں گے۔ لیکن جب قیامت آئے گی۔ تو یہ فرشتے بھی موت سے دوچار ہوں گے۔ پھر ایک ایسا وقت آئے گا جب کائنات میں اللہ تعالی کے علاوہ کوئی چیز زندہ نہ رہے گی۔

اسی صورتحال کو قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں۔ صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے۔ وہی باقی رہ جائے گی۔ اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہواکہ ہر نفس کو مرنا ہے۔

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here